سورة لقمان - آیت 18

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور (از راہ تکبر) لوگوں سے اپنے گال نہ پھلانا، نہ ہی زمین میں اکڑ کر چلنا (کیونکہ) اللہ کسی خود پسند [٢٤] اور شیخی خور کو پسند نہیں کرتا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی تکبرنہ کرکہ لوگوں کوحقیرسمجھے،بلکہ نرمی برت اور خوش خلقی سے پیش آ۔ خندہ پیشانی سے بات کر (صعر) ایک بیماری سے جو اونٹ کے سریاگردن میں ہوتی ہے۔جس سے اس کی گردن مڑجاتی ہے۔پس متکبرشخص کواسی ٹیڑھے منہ والے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (ابن کثیر) اکڑ کر نہ چل: یعنی ایسی چال یارویہ جس سے مال ودولت،جاہ ومنصب یاقوت وطاقت کی وجہ سے فخروغرورکااظہارہوتاہو،یہ اللہ کوناپسندہے اس لیے کہ انسان عاجزوحقیرہے۔اللہ تعالیٰ کویہی پسندہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیارکیے رکھے۔اس سے تجاوزکرکے بڑائی کا اظہار نہ کرے۔ کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے ہے ۔جوتمام اختیارات کامالک ہے اورتمام خوبیوں کامنبع ہے۔اسی لیے حدیث میں فرمایاگیاہے۔کہ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی تکبر ہوگا۔ (مسند احمد: ۱/ ۴۱۶) اور فرمایا کہ جو تکبرکے طورپراپنے کپڑے کوکھینچتے (گھسیٹتے)ہوئے چلے گا،اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ (بخاری: ۲۰۸۵) ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۳۷) ’’اکڑ کر زمین پرنہ چلو،نہ تم زمین کوپھاڑسکتے ہو۔ نہ پہاڑوں کی لمبائی کوپہنچ سکتے ہو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر آ گیاتوآپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت بیان فرمائی اورفرمایاکہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصے ہوتاہے۔اس پرایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ! میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور وہ خوب سفیدہوجاتے ہیں تومجھے بہت اچھے لگتے ہیں،میں ان سے خوش ہوتاہوں،اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلا لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکبر نہیں ہے۔ تکبر اس کانام ہے کہ توحق کو ٹھکرائے اورلوگوں کوذلیل خیال کرے۔‘‘ یہ روایت اورطریق سے بہت لمبی ہے۔ (مسلم: ۹۱، ابن کثیر)