سورة لقمان - آیت 15

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی والدین بھی اگرشرک پر یا دین کے خلاف کسی بات پرمجبورکریں توان کی بات اللہ کے حکم کے آگے تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔البتہ دنیوی معاملات میں ان سے اچھاسلوک کیاجائے ۔خواہ والدین کافرہی کیوں نہ ہوں۔مثلاًمحتاج ہوں توان کی مالی اعانت کی جائے۔دین کے علاوہ دوسری باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے۔ان کاادب واحترام ملحوظ رکھاجائے۔ان سے محبت اور شفقت کاسلوک کیاجائے وغیرہ وغیرہ۔یہ اللہ کے مخلص بندوں کی راہ ہے لہٰذاانہی کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ (تیسیرالقرآن) حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی۔میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تومیری والدہ مجھ پربہت بگڑیں اورکہنے لگیں کہ بچے یہ نیادین توکہاں سے نکال لایا۔سنومیں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے تم دستبرار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی۔اوریونہی بھوکی مرجاؤں گی۔ میں نے اپنی ماں کی خوشامدیں کیں،سمجھایاکہ اللہ کے لیے اپنی ضدسے بازآجاؤ۔یہ توناممکن ہے کہ میں اپنے سچے دین کو چھوڑ دوں۔ اسی ضدمیں میری والدہ پرتین دن کافاقہ گزرگیااوراس کی حالت بہت خراب ہوگئی ۔تومیں اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا کہ میری اچھی ماں سنوتم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزہو۔لیکن میرے دین سے عزیزنہیں واللہ ایک نہیں تمہاری ایک سو جانیں بھی ہوں اوراسی بھوک پیاس میں ایک ایک کرکے نکل جائیں توبھی میں آخری لمحے تک اپنے سچے دین اسلام کونہ چھوڑوں گا۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اورکھاناپیناشروع کر دیا۔ (مسلم: ۲۴۱۲) لوٹنامیرے پاس ہی ہے: یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں(اہل ایمان)کی پیروی اس لیے کروکہ بالآخرتم سب کومیری ہی بارگاہ میں آناہے۔اور میری ہی طرف سے ہرایک کواس کے اچھے یابُرے عمل کی جزاملنی ہے۔اگرتم مجھے یادرکھتے ہوئے میرے راستے کی پیروی کروگے تواُمیدہے کہ قیامت والے روزمیری عدالت میں سرخرو ہوگے۔ بصورت دیگرمیرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ (احسن البیان) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں اطاعت صرف معروف میں ہے۔ (بخاری: ۴۳۴۰)