وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (جو یہ تھی) کہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی (فائدہ کے) لئے کرتا ہے اور جو ناشکری [١٤] کرے تو اللہ یقیناً (اس کے شکر سے) بے نیاز ہے اور خود اپنی ذات میں محمود ہے
حضرت لقمان علیہ السلام نبی تھے یانہیں: اس میں اسلاف کااختلاف ہے۔اکثرحضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ پرہیزگار، ولی اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ حبشی تھے۔اوربڑھی تھے۔ (تفسیرطبری: ۲۰/۱۳۵) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہواتوآپ نے فرمایا،حضرت لقمان علیہ السلام پستہ قد،اونچی ناک والے،موٹے ہونٹ والے نوبی تھے۔ (تفسیر درمنثور) حضرت لقمان اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ نے حکمت یعنی عقل وفہم اوردینی بصیرت میں ممتازمقام عطافرمایاتھا۔ان سے کسی نے پوچھاکہ تمہیں یہ فہم وشعورکس طرح حاصل ہوا؟انہوں نے فرمایاراست بازی،امانت کے اختیارکرنے،اوربے فائدہ باتوں سے اجتناب اورخاموشی کی وجہ سے، ان کی حکمت ودانش پرمبنی ایک مشہور واقعہ ہے کہ وہ غلام تھے ان کے آقانے کہاکہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دوحصے لاؤ۔چنانچہ وہ بکری ذبح کرکے اس کے زبان اوردل نکال کرلے گئے۔ایک دوسرے موقعہ پر آقانے ان سے پھر یہ کہاکہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤوہ پھروہی زبان اور دل لے کرچلے گئے۔پوچھنے پرانہوں نے بتلایاکہ زبان اور دل اگرصحیح ہوں تویہ سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔(ابن کثیر) شکرکامطلب: اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد وثنا اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا یہ شکر ہے۔ سورۂ روم میں ارشاد ہے کہ نیکی والے اپنے لیے بھی بھلا توشہ تیارکرتے ہیں۔ یعنی اگرکوئی ناشکری کرے تو اللہ کواس کی ناشکری ضرور نہیں پہنچا سکتی۔ وہ اپنے بندوں سے بے پروا ہے وہ سب سے غنی ہے