سورة العنكبوت - آیت 40

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی پاداش میں دھر لیا۔ پھر ان ہلاک ہونے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ہم نے پتھراؤ کیا [٦١] اور کچھ ایسے جنہیں زبردست [٦٢] چیخ نے آ لیا اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا [٦٣] اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے غرق [٦٤] کردیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے [٦٥] تھے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

(۱) یعنی ان مذکور ین میں سے ہر ایک کی ان کے ان گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی تھی۔ مثلاً یہ قوم عاد تھی جس پر نہایت تندو تیز ہوا کاعذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اُڑا اُڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انھیں اُچک کر آسمان تک لے جاتی اور انھیں سر کے بل زمین پر دے مارتی جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہوجاتاگویا کہ یہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) (۲)قوم ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے جنھیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کی بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کاعذاب آیا جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کردیا۔ (۳)یہ قارون ہے جسے مال و دولت کے خزانے عطا کیے گئے تھے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز ومحترم ہوں، مجھے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟ چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ (۴) یہ فرعون ہے جو ملک مصر کاحکمران تھا لیکن حد سے تجاوز کرکے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کادعویٰ بھی کررکھاتھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کی جس کو اس نے غلام بنا رکھاتھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔ یہ اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ ہم نے ان سب قوموں کی طرف نبی بھیجے تاکہ وہ انھیں ان کی گمراہیوں سے مطلع کریں، لیکن ان لوگوں نے نبیوں کو جھوٹا کہا اور اپنی گمراہیوں پر اور بھی زیادہ ڈٹ گئے۔ اللہ کی فرمانبرداری کی بجائے انبیاء کے دشمن بن گئے اور انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دیناشروع کردیں، پھر جب ہماری طرف سے پوری طرح حجت قائم ہوگئی تو اس وقت ہم نے انھیں تباہ کیا۔ اس تباہی کے ذمہ دار وہ خود تھے ہم نہیں تھے۔