وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان [٢٤] کے درمیان رہے۔ پھر ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا کہ وہ ظالم تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی: اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دی جارہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کواللہ کی طرف بلاتے رہے،دن رات،پوشیدہ اورظاہر،ہرطرح آپ نے انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی۔لیکن وہ اپنی سرکشی اورگمراہی میں بڑھتے ہی گئے، بہت ہی کم لوگ آپ پرایمان لائے۔آخرکاراللہ کاغضب ان پربصورت طوفان آیااورانہیں تہس نہس کردیاتواے نبی آخرالزماں،آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کونیاخیال نہ کریں۔آپ اپنے دل کورنجیدہ نہ کریں،ہدایت وضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔جن لوگوں کاجہنم میں جاناطے ہوچکاہے۔انہیں توکوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کونجات ملی اورقوم ڈوب گئی ۔اسی طرح آخرمیں غلبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین پست ہوں گے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے۔کہ چالیس سال کی عمرمیں حضرت نوح علیہ السلام کونبوت ملی اوربنوت کے بعدساڑھے نوسوسال تک آپ نے اپنی قوم کوتبلیغ کی،طوفان کی عالمگیرہلاکت کے بعدبھی حضرت نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے۔یہاں تک کہ بنوآدم کی نسل پھیل گئی اوردنیامیں یہ بکثرت نظرآنے لگے۔ (حاکم: ۲/ ۵۴۵)