وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین [١٠] سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں [١١] تو ان کا کہنا نہ مان [١٢]۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں [١٣] گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
قرآن کریم کے متعددمقامات پراللہ تعالیٰ نے اپنی توحیداورعبادت کاحکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی ہے۔کیونکہ انہی سے انسان کاوجودہوتاہے جس سے اس امرکی وضاحت ہوئی ہے کہ ربوبیت (الٰہ واحد)کے تقاضوں کوصحیح طریقے سے وہی سمجھ سکتاہے اور انہیں ادا کرسکتاہے۔جووالدین کی اطاعت وخدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتاہے۔جوشخص یہ بات سمجھنے سے قاصرہے کہ دنیامیں اس کاوجودوالدین کی باہمی قربت کانتیجہ اوراس کی تربیت و برداشت، ان کی حد درجہ مہربانی اورشفقت کاثمرہ ہے۔ اس لیے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اوران کی اطاعت میں کوئی سرتابی نہیں کرنی چاہیے وہ یقیناخالق کائنات کوسمجھنے اوراس کی توحیدوعبادت کے تقاضوں سے بھی قاصررہے گا۔اس لیے آحادیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکیدآئی ہے۔ایک حدیث میں والدین کی رضااللہ کی رضااوروالدین کی ناراضی کورب کی ناراضی کاباعث قرار دیا گیا ہے۔ (ابن ماجہ: ۳۵۱۴) ان دونوں یاان میں سے کسی ایک کابڑھاپے کازمانہ آجائے توانہیں اف بھی نہ کہنا،ڈانٹ ڈپٹ توکہاں کی بات ہے، بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنااوررحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا،اوراللہ سے ان کے لیے دعاکرناکہ اے اللہ ان پرایساہی رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پرکیاکرتے تھے۔لیکن اگریہ شرک کی طرف بلائیں توان کاکہانہ ماننا،سمجھ لوکہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑاہوناہے۔اس وقت میں اپنی عبادت کااورمیرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کابدلہ دوں گا،اورنیک لوگوں کے ساتھ شریک کروں گا۔ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جومیرے احکام کے خلاف نہیں توخواہ وہ کیسے ہی ہوں میں تمہیں ان سے الگ کردوں گا۔کیوں کہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگاجسے وہ دنیا میں چاہتا تھا۔ (مسند احمد۵،۶۶ میں ہے) اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چارآیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے۔یہ اس لیے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہاکہ اے سعدکیااللہ کاحکم میرے ساتھ نیکی کرنے کانہیں؟اگرتونے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکارنہ کیاتوواللہ میں کھانا پینا چھوڑ دوں گی۔ چنانچہ اس نے یہی کیا۔ یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا اس کے حلق میں پہنچا دیتے تھے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم: ۱۷۴۸، ترمذی: ۳۱۸۹) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔ اطاعت صرف اس کام میں ہے جو جائز ہے۔ (مسلم: ۱۸۴۰)