وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے [٢] ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور یہ معلوم [٣] کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون
امتحان اورمومن: یعنی یہ سنت الٰہی ہے جوپہلے سے چلی آرہی ہے۔اس لیے وہ اس اُمت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی اُمتوں کی آزمائش کی گئی ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس ظلم وستم کی شکایت کی جس کانشانہ وہ کفارمکہ کی جانب سے بنے ہوئے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعاکی درخواست کی،تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مددفرمائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’یہ تشددوایذاتواہل ایمان کی تاریخ کاحصہ ہے ۔تم سے پہلے بعض مومنوں کایہ حال کیاگیاکہ انہیں ایک گڑھاکھودکراس میں کھڑاکردیاگیااورپھران کے سروں پرآراچلادیاگیاجس سے ان کے جسم دوحصوں میں تقسیم ہوگئے۔اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پرہڈیوں تک پھیری گئیں۔لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ (بخاری: ۳۸۵۲) حضرت عمار،ان کی والدہ حضرت سمیہ اوروالدحضرت یاسر،حضرت صہیب،حضرت بلال و مقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پراسلام کے ابتدائی دورمیں جوظلم وستم کے پہاڑتوڑے گئے وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کاسبب بنے،تاہم عموم الفاظ کے اعتبارسے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔