إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے نبی! بلاشبہ جس (اللہ) نے آپ پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ) [١١٥] فرض کیا ہے وہ آپ کو (بہترین) [١١٦] انجام کو پہنچانے والا ہے۔ آپ ان (کافروں) سے کہئے کہ : میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت [١١٧] لے کر آیا ہے اور کون واضح گمراہی میں پڑا ہے۔
یعنی قرآن لوگوں کوپڑھ کرسنانے، قرآن کی تعلیم دینے،اس پرعمل پیراہوکردوسروں کودکھانے اوراس کی اشاعت وتبلیغ کی ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے۔ بہترین انجام: یعنی آپ کے مولد مکہ جہاں سے آپ نکلنے پرمجبورکردیے گئے تھے آپ پھراسی شہرمکہ کوآنے والے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری (۴۷۷۳) میں اس کی یہی تفسیرنقل ہوئی ہے۔چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعداللہ کایہ وعدہ پوراہوگیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ۸آٹھ ہجری میں فاتحانہ طورپرمکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کواپنی طرف لوٹائے گااورتبلیغ ورسالت کے بارے میں پوچھے گا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَنَسْـَٔلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَ لَنَسْـَٔلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ﴾(الاعراف: ۶) پھرہم ان لوگوں سے ضرورپوچھیں گے جن کے پاس پیغمبربھیجے گئے تھے اورہم پیغمبروں سے ضرورپوچھیں گے۔کون ہدایت پرہے۔یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے آبائی اور روایتی مذہب سے انحراف کی بناپرگمراہ سمجھتے تھے۔فرمایامیرارب خوب جانتاہے کہ گمراہ میں ہوں جواللہ کی طرف سے ہدایت لے کرآیاہوں یاتم ہو،جواللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کوقبول نہیں کررہے؟