قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
وہ کہنے لگا : یہ تو جو کچھ مجھے ملا ہے اس علم کی بدولت [١٠٤] ملا ہے جو مجھے حاصل ہے'' کیا اسے یہ معلوم نہیں۔ سو اللہ اس سے پہلے ایسے بہت سے [١٠٥] لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت میں اس سے سخت اور مال و دولت میں اس سے زیادہ تھے۔؟ اور مجرموں کے گناہوں کے متعلق ان سے تو نہ پوچھا جائے گا۔ [١٠٦]
قارون کاجواب اورناعاقبت اندیشی: ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے کہاکہ اللہ نے مجھے یہ مال جودیاہے تواپنے علم کی وجہ سے دیاہے کہ میں اس کامستحق ہوں اورمیرے لیے اس نے یہ پسندکیاہے جیسے ایک دوسرے مقام پرقرآن میں اللہ نے انسانوں کا ایک اور قول نقل فرمایاہے کہ جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے توہمیں پکارتاہے۔اورجب ہم اسے اپنی نعمت سے نوازدیتے ہیں تو کہتا ہے: ﴿اِنَّمَا اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ﴾ ’’یہ توجوکچھ مجھے ملاہے اس علم کی بدولت ملاہے جومجھے حاصل ہے۔‘‘ اور ارشاد ہے: ﴿وَ لَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلَنَّ هٰذَا لِيْ﴾ (حم السجدۃ: ۵۰) ’’جب ہم انسان پرتکلیف کے بعداپنی رحمت کرتے ہیں توکہتاہے یہ تومیرا استحقاق ہے۔‘‘ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (یعنی سونا بنانے کا) علم آتا تھا، لیکن امام ابن کثیرفرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، اور دھوکا ہے، کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیزکی ماہیت تبدیل کرسکے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہ تھاکہ وہ دوسری دھاتوں کوتبدیل کرکے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبارجمع کرلیتا۔ مال ودولت کی فراوانی فضیلت کاباعث نہیں: یعنی قوت ومال کی فراوانی،فضیلت کاباعث نہیں اگرایساہوتاتوپچھلی قومیں تباہ وبربادہ نہ ہوتیں۔اس لیے قارون کااپنی دولت پرگھمنڈکرنے اوراسے باعث فضیلت باور کرنے کاکوئی جوازنہیں۔ گناہ گاروں سے بارپرس نہیں کی جاتی: یعنی گناہگاروں سے گناہ کی کثرت کی وجہ سے کہ پھر ان سے سوال بھی عبث ہوتا۔ یعنی گناہوں کو وجہ سے جب وہ عذاب کے مستحق قراردیے گئے ہوں توپھران سے بازپُرس نہیں ہوتی۔بلکہ اچانک ان کامواخذہ کرلیاجاتاہے۔