إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا : پھر وہ اپنی قوم کے خلاف ہوگیا (اور دشمن قوم سے مل گیا) اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیئے تھے جن کی چابیاں ایک طاقتور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ [١٠١] ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا'': اتنا اتراؤ نہیں'' [١٠٢] اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
قارون اوراس کا کردار: قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کاچچازادبھائی تھااللہ نے اسے بے پناہ دولت عطاکررکھی تھی،اوروہ پورے علاقے کا رئیس اعظم تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کامطالبہ کیا۔اس نے نہ صرف زکوٰۃ دینے سے انکارکیابلکہ بنی اسرائیل سے نکل کر فرعون اوراس کے درباریوں سے مل گیافرعون کے دربارمیں اس نے ممتازمقام حاصل کرلیااورفرعون اورہامان کے بعدتیسرے نمبرپراسی کاشمارہونے لگا جیساکہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۔ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ﴾(المومن: ۲۳۔ ۲۴) ’’ہم نے موسیٰ علیہ السلام کواپنی نشانیاں اورکھلی دلیل کے ساتھ فرعون، ہامان اورقارون کی طرف بھیجاتووہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادوگرہے سخت جھوٹا۔‘‘ اس کی چابیوں کابوجھ اتناتھاکہ ایک طاقت ورجماعت بھی اسے اُٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ اگراللہ اسے اپنے انعامات سے نوازے تووہ اپنے آپ کوعام انسانوں سے بالاترمخلوق سمجھنے لگتاہے۔اس کی چال ڈھال، اس کی گفتگو،اس کے لباس،اس کے رنگ ڈھنگ غرض کہ اس کی ہر ایک اداسے نخوت اوربڑائی ٹپکنے لگتی ہے،یہی صورت حال قارون کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کچھ بزرگوں نے اسے ازراہ نصیحت کہاکہ اگراللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازاہے تواپنے آپ کوضبط اورکنٹرول میں رکھو،بات بات پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں اورنہ ہی اللہ ایسے لوگوں کوپسندکرتاہے۔