وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
جس دن اللہ انھیں پکارے گا اور ان سے پوچھے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا [٨٥] شریک سمجھا کرتے تھے۔
اعتراض کاپانچواں جواب: یہ آیت بھی مشرکین مکہ سے متعلق ہے جو دنیوی مفادات کی خاطر شرک اور بت پرستی سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اپنے سامنے کھڑاکرکے فرمائے گا کہ دنیا میں جنھیں تم میرے سوا پوجتے تھے، جن بتوں اور پتھروں کو مانتے تھے، جن کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے آج کہاں ہیں۔ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں۔ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہوگا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کی مجال ہوگی جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُالَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ﴾ (الانعام: ۹۴) ’’تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے، جس طرح ہم نے اول بارتم کو پیداکیاتھااور جو کچھ ہم نے تم کو دیاتھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کوبھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں قطع تعلق ہوگیا اور وہ تمہارا دعویٰ سب تم سے گیاگزرا ہوا۔‘‘