أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبارہ دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھلائی ہے [٧٢] اور برائی کا جواب بھلائی سے [٧٣] دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [٧٤]
اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کو دوہرا اجر: صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الٰہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہناہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعددوسری کتاب آئی تو اس پر ایمان رکھا، پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے، ایسے لوگوں کے لیے دوہرا اجرہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتاہے۔ (۱) اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے۔ (۲) غلام مملوک جو اپنے آقا کی فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتارہے۔ (۳)اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب و علم سکھائے،پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔ (بخاری: ۳۰۱۱) ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے ساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایاکہ یہود و نصاریٰ میں سے جو مسلمان ہوجائے، اُسے دوہرا اجر ہے اور اُس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں۔ (احمد: ۵/۲۵۹)