فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پھر جب بچی پیدا ہوئی تو کہنے لگی : ’’میرے ہاں [٣٧] تو لڑکی پیدا ہوگئی‘‘ حالانکہ جو کچھ اس نے جنا، اسے اللہ خوب جانتا تھا۔ ’’اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا [٣٨] اب میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی [٣٩] ہوں‘‘
میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی: اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہے اور عذر كا بیان بھی، حسرت اس طرح کہ میری اُمید کے برعکس لڑکی پیدا ہوگئی عذر اس طرح کہ نذر سے مقصود تو تیری رضا کے لیے ایک خدمتگار وقف کرنا تھا۔ اور یہ کام ایک مرد ہی کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم کو یوں تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدر جہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کا جوڑ كا نہیں ہوسکتا لہٰذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے تو وہ چلّا کر رونے لگتا ہے صرف مریم اور اس کے بیٹے (حضرت) عیسیٰ کو شیطان نے نہیں چھوا‘‘۔ (بخاری:۴۵۴۸)