فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
پھر جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے کنارے مبارک خطہ کے ایک درخت سے آواز آئی کہ : ''اے موسیٰ ! میں ہی اللہ ہوں۔ [٤٠] سارے جہانوں کا پروردگار۔
طویٰ میں پہنچنا، اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونا، اور نبوت ملنا: یہ آوازوادی کے کنارے سے آ رہی تھی جو مغربی جانب سے پہاڑ کی دائیں طرف تھی یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے ۔ یہ آگ نہیں تھی نہ اس سے دھواں ہی اُٹھ رہا تھا بلکہ یہ اللہ کانور تھا جس نے ایک درخت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا اور اس آگ یا نور کے درمیان یہ سر سبز درخت لہلا رہا تھا۔ اس درخت سے آواز آنے لگی کہ اے موسیٰ ! تم یہاں اتفاقاً نہیں پہنچے بلکہ ٹھیک میرے اندازے کے مطابق اس وادی میں پہنچے ہو اور میں اللہ تم سے ہمکلا م ہو رہاہوں،جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔