وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور موسیٰ شہر میں اس وقت [٢٢] داخل ہوئے جب اہل شہر غفلت [٢٣] میں تھے۔ وہاں موسیٰ نے دو آدمیوں [٢٤] کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ ان میں ایک تو موسیٰ کی اپنی قوم سے تھا اور دوسرا دشمن کی قوم سے۔ جو موسیٰ کی اپنی قوم سے تھا اس نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو دشمن کی قوم سے تھا۔ موسیٰ نے اسے مکا مارا تو اس کا کام ہی تمام کردیا۔ موسیٰ نے کہا : یہ تو ایک شیطانی حرکت ہے۔ [٢٥] بلاشبہ شیطان صریح بہکانے والا دشمن ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ شاہی محلات شہریاعام لوگوں کی رہائشی آبادیوں سے کچھ دورتھے جیساکہ عام دستورہے کہ بڑے بڑے لوگ عام آدمیوں میں گھل مل کررہناپسندنہیں کرتے بلکہ شہرسے دورکھلی فضاؤں میں اپنے بنگلے کوٹھیاں اور محل بناتے ہیں۔ شہرغفلت میں تھا: یعنی جب لوگ سورہے تھے اورراستے اور سڑکیں سنسان اوربے آبادمعلوم ہوتی تھیں ایساوقت عموماً علی الصبح ہوا کرتا ہے یا گرمیوں میں دوپہر کے بعد جب اکثر لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں غرض جب موسیٰ علیہ السلام شہرمیں داخل ہوئے تودیکھاکہ دوآدمی آپس میں لڑرہے ہیں۔ان میں ایک فرعون کی قوم کاقبطی تھااوردوسراموسیٰ علیہ السلام کی قوم کا۔ان لڑنے والوں میں سے سبطی (بنی اسرائیلی) نے آپ کومددکے لیے پکاراکہ میں اسے قبطی کے ظلم سے چھڑاؤں اورجب انہیں معلوم ہواکہ زیادتی قبطی ہی کررہاہے۔تورگ حمیت جوش میں آگئی اوراسے ایک گھونسارسیدکیاجس سے قبطی کاکام تمام ہوگیا۔ یہ توایک شیطانی حرکت ہے: اسے شیطانی فعل اس لیے قراردیاکہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے۔اورموسیٰ علیہ السلام کامقصداسے ہرگزقتل کرنانہیں تھا۔اورشیطان کی دشمنی بھی واضح ہے اورانسان کوگمراہ کرنے کے لیے وہ جوجوجتن کرتاہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔