وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور فرعون کی بیوی فرعون سے کہنے لگی : یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، [١٤] اسے قتل نہ کرو، کیا عجیب کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (اس کے انجام سے) بے خبر [١٥] تھے۔
فرعون کی بیوی بے اولاد تھی چنانچہ وہ فوراًکہنے لگیں یہ بچہ توبہت پیاراہے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ہم خوداس کی تربیت کریں گے۔پھریہ ہمارے لیے مفیدبھی ہوسکتاہے،جب ہم اس کی پرورش کریں گے تواسے کیاخبرہوسکتی ہے کہ اس کا بنی اسرائیل کے کسی فردسے کچھ تعلق بھی ہے۔ اب انہوں نے تواسے اپنابچہ اورآنکھوں کی ٹھنڈک بناکرلیاتھانہ کہ دشمن سمجھ کر۔لیکن انجام ان کے اس فعل کایہ ہواکہ وہ ان کادشمن اور رنج و غم کاباعث ثابت ہوا۔موسیٰ علیہ السلام ان کے لیے دشمن کیوں ثابت ہوئے؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اورخطاکارتھے۔اللہ تعالیٰ نے سزاکے طورپران کے پروردہ کوہی ان کی ہلاکت کاذریعہ بنادیا۔ تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ: یعنی ان دونوں کویہ معلوم نہ تھاکہ جوباتیں وہ کررہے ہیں وہ خود نہیں کر رہے ہیں وہ بلکہ مشیت الٰہی ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوارہی ہے۔یاانہیں کیا خبرکہ جس بچے کومارنے کی خاطرانہوں نے ہزارہابچے قتل کردیے وہی بچہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اور جسے یہ اپنا متنبی بنانے کے مشورے کررہے ہیں۔وہی ان کادشمن بن جائے گا۔اوراسی کے ہاتھوں ان کی اوران کی حکومت کی تباہی واقع ہوگی۔