وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِينَ
اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں۔ اب جو شخص راہ راست پر آتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ [١٠٢] کے لیے آتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو اس سے آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ایک ڈرانے والا ہوں
اور مجھے حکم ہواہے کہ جس قدر قرآن نازل ہوتاجائے ساتھ کے ساتھ تم لوگوں کو سناتا جاؤں رہی یہ بات کہ تم ان آیات کی طرف توجہ دیتے ہو یا نہیں، سیدھی راہ کی طرف آتے ہو یا نہیں، یہ میری ذمہ داری نہیں، میری ذمہ داری صرف قرآن سنا دیناہے۔ پھر اگر ہدایت قبول کرلو گے تو اس میں تمہارا ہی بھلا ہے ۔ دنیا میں اللہ عزت واقتدار بخشے گا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ گے۔ پھر فرمایا کہ کہہ دیجیے کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو اپنے بندوں کی بے خبری میں انھیں عذاب نہیں کرتابلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتاہے اپنی حجت تمام کرتاہے،بُرا بھلا سمجھا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَ فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ﴾ (حم السجدۃ: ۵۳) ’’ہم انھیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہو جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں ہے بلکہ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے: ’’دیکھو لوگو ! اللہ کو کسی چیز سے،اپنے کسی عمل سے غافل نہ جاننا۔ وہ ایک ایک مچھر سے، ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے۔‘‘ عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتاتو انسان کے قدموں کے نشان سے جنھیں ہوامٹادیتی ہے،غفلت کر جاتا، لیکن وہ ان نشانات کابھی حافظ اور عالم ہے۔ (ابن کثیر: ۴/ ۱۱۲) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہاکرتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے : اذماخلوت الدھر یو مافلاتقل خلوت ولکن قل علی رقیب جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر وناظر جاننا، وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں،نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے سورۃالنمل کی تفسیر ختم ہوئی۔