لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
مومنوں کو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنانا چاہیے اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں الا یہ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے۔[٣١] اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اس آیت میں اجتماعی اور انفرادی طور پر مومنوں سے خطاب ہے یعنی کوئی مومن کسی کافر کو دوست نہ بنائے اور مومنوں کی جماعت کافروں کی جماعت کو دوست نہ بنائے اور نہ ہی مومنوں کی حکومت کافروں کی حکومت کو اپنا دوست بنائے۔ اس كی وجہ صرف اور صرف یہ ہے كہ کافر کبھی مومن کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا جب بھی اسے موقع ملے گا وہ نقصان ہی پہنچائے گا۔ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے سختی کیساتھ منع فرمایا ہے۔ البتہ حسب ضرورت مصلحت ہو ان سے صلح اور معاہدہ بھی ہوسکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی ۔