وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ : اللہ کی عبادت کرو۔ تو اسی وقت وہ دو فریق [٤٥] (مومن اور کافر) بن کر جھگڑنے لگے۔
حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمودکے پاس آئے توانہیں توحیدکی دعوت دی۔ جس سے وہ دو گروہ بن گئے۔ایک جماعت مومنوں کی اور دوسراگروہ کافروں کایہ آپس میں گتھم گتھا گئے جیسے کہ قرآن میں ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہاکہ کیاتم صالح کورسول مانتے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلاایمان لاچکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بس تو پھر ہم بھی ایسے ہی کھلم کھلاکافرہیں۔ہرنبی کی دعوت پریہی کچھ ہوتاہے،مظلوم قسم کے لوگ نبی کی دعوت پرلبیک کہتے ہیں اورچودھری قسم کے کھاتے پیتے لوگ نبی کے دشمن بن جاتے ہیں۔