قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ
(ملکہ) کہنے لگی : بادشاہ لوگ جب کسی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معززین کو ذلیل [٣١] بنا دیتے ہیں اور یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے۔
ملکہ (بلقیس) چونکہ سمجھدار اور عاقبت اندیش تھی اور ہُد ہُد کے ہاتھوں خط کے ملنے کاکھلا معجزہ بھی دیکھ چکی تھی اور اس نے یہ بھی معلوم کرلیاتھاکہ سلیمان علیہ السلام کی طاقت کے مقابلے میں میرا لاؤ لشکر کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو ملک کی بربادی کے علاوہ میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی ۔ لہٰذا اس نے سرتابی یا خاموشی کے انجام سے اپنے مشیروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتاآیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتاہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنادیتاہے۔ پھر وہاں کے سرکردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کردیتاہے تاکہ وہ دوبارہ اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ نہ سکیں ۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتاہے ۔ جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر زندہ رہناپڑتاہے پھر ملک میں لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت عام ہو جاتی ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔