أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ (خیالوں کی) ہر وادی میں بھٹکتے [١٣٥] پھرتے ہیں
شاعروں کی خصوصیات،تخیل ہی تخیل: ان دوآیات میں شاعروں کی دوخصلتیں بیان فرمائیں ایک یہ کہ ان کے بیان میں تخیل ہی تخیل اور غلو کی حد تک پہنچا ہوا مبالغہ ہوتاہے ۔ مثلاً کسی کی تعریف کرنے بیٹھے تو اسے آسمان پر چڑھادیا اور کسی کی ہجو کرنے پر آئے تو اسے دنیا کی بدترین مخلوق بنا کر پیش کردیا۔ پھر اگر کسی سے کچھ انعام و اکرام مل گیا تو اس کی مدح سرائی شروع کردی ۔ کسی کی پگڑی اچھالی،کہیں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی اور عشق کی آگ لگائے بغیر تو کسی شاعر کی شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی ۔ استعاروں اور تشبیہات کااستعمال اور اپنی ثناء خوانیاں جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اس سے کام لیتے ہیں۔ غرض کہ زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں جن میں اپنے تخیل کے گھوڑے نہ دوڑاتے ہوں، سر نہ پھٹکتے پھرتے ہوں۔ ان کی زندگی کانہ کوئی متعین مقصد ہوتاہے اور نہ کسی اصول کے پابند ہی ہوتے ہیں۔