وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور (اے کافرو!) اگر تمہیں اس کلام میں [٢٧] ہی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے تو تم بھی اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے سب ہم نواؤں کو بھی بلا لو۔ اگر تم سچے ہو (تو تمہیں یہ کام ضرور کر دکھانا چاہیے)
توحید کے اثبات كے بعد اب اس آیت میں رسالت كے اثبات كا بیان ہے کہ یہ کتاب وہ نہیں جس میں تم شک کرتے ہو اور کہتے ہوکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گھڑلیا ہے، کبھی کہتے ہو کہ جادو گر یا کاہن کا کلام ہے اور كبھی اسے کسی دیوانے کا یا شاعر کا کلام بتلاتے ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا لائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ خَلَقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ﴾ (الطور: ۳۵) ’’یا وہ کسی چیز کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں، یا وہ (خود) پیدا کرنے والے ہیں؟‘‘دراصل بات یہ ہے کہ جو لوگ حق کو ماننا نہیں چاہتے وہ اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیں۔ قرآن کی حقانیت: یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جسے اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر خود سے بنا لیا جائے، بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے نازل ہو چکا ہے اس کی تصدیق كرنے والا اور ’’الکتاب‘‘ کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا﴾ (الاسرا: ۸۸)’’کہہ دیجئے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی مثل لے آنے كا چیلنج دیا لیکن كسی كو جرأت نہ ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (ھود: ۱۳) ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ کہہ دے پھر اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے بلاسکتے ہو بلالو، اگر تم سچے ہو۔‘‘اس آیت میں جھنجھوڑا گیا، پھر بھی سانس نہ نکلی ، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی سب سے چھوٹی سورۃ ’’الکوثر‘‘ لکھواکر دستور کے مطابق باب کعبہ پر لٹکادی جوکئی روز تک لٹکتی رہی۔ مگر سب کو گویا سانپ سونگھ گیا بالآخر کسی بڑے شاعر نے اس کے آخر میں ’’ ما ھذا من كلام البشر‘‘ کا اضافہ کرکے اپنے عجز کا کھلا اعتراف کرلیا۔