فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ
چنانچہ (ایک دن) صبح کے وقت فرعونی ان کے تعاقب میں چل پڑے۔
فرعون کی بدحواسی: فرعون کی بدحواسی کا عالم یہ تھا کہ ایک طرف تو وہ بنی اسرائیل کو مٹھی بھر اور کمزور سی جماعت قرار دے رہا تھا دوسری طرف ایک عظیم الشان لشکر کی تیاری کا حکم دے رہا تھا۔ فرعون کے اس لشکر نے بنی اسرائیل کو بحیرہ قلزم کے کنارے جا پکڑا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دونوں لشکروں میں صرف اتنا فاصلہ رہ گیا تھا کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر ہے دونوں طرف موت ہی موت کھڑی نظر آرہی تھی لہٰذا ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے، موسیٰ! اب تو ہم مارے گئے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام پر اس صورت حال کا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ انھیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جو فتح ونصرت کے وعدے کر رکھے ہیں وہ یقینا پورے ہوں گے۔ لہٰذا انھوں نے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہے وہ ضرور ہماری راہنمائی فرمائے گا۔