قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ
فرعون بولا : ’’دیکھو! اگر تم نے میرے سوا کوئی اور الٰہ مانا تو میں تجھے قید [٢٢] میں ڈال دوں گا‘‘
فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ: فرعون نے جب دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کاملہ کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے بن نہیں پا رہا تو اس نے دلائل سے صرف نظر کر کے دھمکی دینی شروع کر دی اور کہنے لگا کہ موسیٰ میرے سوا کسی اور کو معبود بنائے گا تو میں ملکی قانون سے بغاوت کے جرم میں تمھیں قید میں ڈال دوں گا۔ اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں اللہ کی عطا کردہ نشانیاں تمہیں دکھا کر ثابت کر دوں کہ میں فی الواقع رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔ تب بھی تم میری صداقت کو تسلیم نہیں کرو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اگرچہ وعظ ونصیحت سے یہ بات ذہن نشین کرا دی تھی کہ رب العالمین ہی وہ بالاتر ہستی ہے جو پوری کائنات کی خالق، مالک اور پرورش کنندہ ہے۔ لہٰذا اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کا ہر حکم بجا لایا جائے۔ اب بحث اس بات میں رہ گئی تھی کہ آیا موسیٰ علیہ السلام اس بالاتر ہستی کے رسول ہیں بھی یا نہیں؟ فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام سے اپنی رسالت کے ثبوت میں نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے دربار میں ہی اپنا عصا زمین پر پھینک دیا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑا سانپ یا اژدھا بن کر فرعون کی طرف بڑھا جس سے فرعون سخت دہشت زدہ ہوگیا تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اسے سنبھالو۔ یہ پہلا معجزہ ہی فرعون کی یقین دہانی کے لیے کافی تھا۔ ابھی فرعونیوں پر اس معجزے کے اثرات باقی تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبایا، پھر جب اسے نکالا تو اس سے روشنی کی شعاعیں نکل کر فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگیں۔