وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی [٥٢] گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس بستی کا حال نہ دیکھا ہوگا ؟ لیکن (اصل معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں یہاں قوم لوط آباد تھی جن پر زمین الٹ دی گئی اور آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ پھر ان پر بُرا مینہ برسایا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا۔ یہ دن رات وہاں سے آمد ورفت رکھتے ہیں پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہ پر ہیں۔ ان کے واقعات مشہور ہیں۔ کیا تم انھیں نہیں دیکھتے؟ یقینا دیکھتے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں جو سمجھ سکو، اور غور کرو، اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کا شکار ہوگئے۔ پس انھیں اڑا دیا گیا ان کی بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو، لیکن جو قیامت کے ہی منکر ہوں انھیں کیا عبرت حاصل ہوگی جو دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں۔