قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا
آپ ان پوچھئے : کیا یہ انجام اچھا ہے یا ہمیشہ کی جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے جو ان کے عملوں کا بدلہ [١٩] اور ان کی آخری منزل ہوگی۔
ابدی لذتیں اور حسرتیں: اوپر کی آیات میں جہنم والوں کا انجام بتایا گیا جو سر کے بل گھسیٹ کر وہاں پھینک دئیے جائیں گے۔ بندھے بندھائے، تاریک جگہ میں ہوں گے، نہ وہاں سے چھوٹ سکیں گے اور نہ کوئی حرکت کر سکیں گے اور نہ وہاں سے بھاگ سکیں اور نہ نکل سکیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ جو دنیا میں گناہوں سے بچتے رہے۔ اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں، ابدی لذتیں، دائمی مسرتیں ان کے لیے موجود ہیں، عمدہ کھانے، اچھے بچھونے، بہترین سواریاں، پر تکلف لباس، بہتر بہتر مکانات، بنی سنوری پاکیزہ حوریں، راحت افزا منظر ان کے لیے مہیا ہوں گے۔ جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کیا خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے۔ پھر ان کے کم ہو جانے، ختم ہو جانے، خراب ہو جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ وہاں سے نکالے ہی جائیں گے۔ لازوال، بہترین زندگی، ابدی رحمت، اور دوام و ابدیت کی دولت انھیں مل گئی اور ان کی ہوگئی یہ رب کا احسان وانعام ہے جو ان پر ہوا۔ اور جس کے یہ مستحق تھے۔