فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے [٣٩٨] اور اگر (سود سے) توبہ کرلو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ [٣٩٩] نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے
اگر تم نے سود نہ چھوڑا۔ تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کرلو یعنی سود چھوڑ دو تو اصل سرمایہ تمہارا حق ہے۔ اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہ کرو۔ اسی طرح مقروض کو اصل سرمایہ ادا کرنا ہوگا تاکہ تم پر بھی ظلم نہ ہو۔ ایسا کرنے سے انسان کے دل میں اخلاقی لحاظ سے اللہ کا خوف رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سود کی رقم واپس بھی کرسکتا ہے ۔ قیامت کے دن فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سود كے ذریعے سے مال میں اضافہ كرے گا اس كا انجام مال كی قلت ہو گا۔‘‘(مسند احمد: ۲۱/ ۳۹۵، ح: ۳۷۵۳) سود کا پہلا مطالبہ تقویٰ ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو ضمیر کا چوکیدار ہے خدا خوفی کا نگران ہے۔