وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اللہ نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے [٧٣] پیدا کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، کچھ دو پاؤں پر اور کچھ چار پاؤں پر، اور کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
زمین پر سب جانداروں کی تخلیق پانی سے ہوئی: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ﴾ (ہود: ۷) اور وہی تو ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن کے کچھ لوگ آپ کے پاس عالم کی پیدائش کا حال پوچھنے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پہلے صرف) ’’اللہ کی ذات تھی اور اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ لیا اور آسمان اور زمین پیدا کیے۔ (بخاری: ۶۱۵۵) اور فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَيٍّ﴾ (الانبیاء: ۳۰) ’’جن چیز میں بھی زندگی کی رمق ہے اسے ہم نے پانی سے بنایا ہے۔‘‘ جس کا دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کوئی جاندار چیز پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس آیت میں رب تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرمایا کہ اس نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی مخلوقات پیدا کر دیں۔ خواہ وہ کسی نوعیت کی ہوں، کیڑے مکوڑے ہوں، پیٹ کے بل چلنے والے ہوں یا رینگنے والے ہوں جیسے سانپ، گرگٹ اور مچھلی وغیرہ۔ یا دو پاؤں پر چلنے والے ہوں جیسے انسان اور پرندے، یا چار پاؤں والے جیسے تمام مویشی اور درندے وغیرہ۔ پھر کچھ ایسی بھی مخلوق ہے جس کے پاؤں چار سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسے لال بیگ وغیرہ، وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے، جو نہیں چاہتا وہ ہرگز نہیں ہوتا۔