سورة النور - آیت 33

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو لوگ نکاح (کا سامان) نہیں پاتے انھیں (زنا وغیرہ) سے بچے رہنا چاہیئے تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے [٥٣] غنی کردے اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مکاتبت [٥٤] کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور اس مال میں سے جو اللہ تمہیں دیا [٥٥] ہے انھیں بھی دے دو۔ اور تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہیں تو انہیں [٥٦] اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ اور جو کوئی انھیں مجبور کرے [٥٧] تو ان پر جبر کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت سے پہلی آیت میں ذکر ہو چکا ہے کہ جو جوان مرد نکاح اور خانہ آبادی کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا تمہارے عفیف اور پاکیزہ رہنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے انھیں نکاح کے بہترین مواقع مہیا فرما دے اور انھیں غنی بھی کر دے۔ مکاتب: اس غلام کو کہا جاتا ہے، جو اپنے مالک سے اس بات کا معاہدہ کر لیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کر کے ادا کر دوں گا تو آزادی کا مستحق ہو جاؤں گا۔ ’’بھلائی نظر آئے‘‘ کا مطلب ہے کہ اس کے صدق و امانت پر تمہیں یقین ہو یا کسی صنعت و حرفت سے وہ آگاہی رکھتا ہو، تاکہ وہ محنت کر کے کمائے اور رقم ادا کر دے۔ اسلام نے چونکہ زیادہ سے زیادہ غلامی کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اپنائی تھی، اس لیے یہاں بھی مالکوں کو تاکید کی گئی ہے کہ مکاتبت کے خواہش مند غلاموں سے معاہدہ کرنے میں تامل نہ کریں بشرطیکہ تمہیں ان کے اندر ایسی بات معلوم ہو کہ جس سے تمہاری رقم کی ادائیگی بھی ممکن ہو۔ مکاتب کی مالی امداد: اس کا مطلب ہے کہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اس نے جو معاہدہ کیا ہے اور اب وہ رقم کا ضرورت مند ہے تاکہ معاہدے کے مطابق وہ رقم اد اکرے، تو تم بھی اس کے ساتھ مالی تعاون کرو۔ اگر اللہ نے تمہیں صاحب حیثیت بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو مصارف (سورۃ التوبہ: ۶۰) میں بیان فرمائے ہیں ان میں ایک (وفی الرقاب) بھی ہے جس کے معنی ہیں گردنیں آزاد کرانے میں یعنی غلاموں کی آزادی پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب غلام اور لونڈیوں کو اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے، اور محض دنیوی مال کے لیے اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ذلت کا یہ داغ برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ عبداللہ بن ابی منافق رئیس المنافقین اس سلسلے میں بہت مشہور تھا۔ اس کی بعض لونڈیاں مسلمان ہو گئیں تو انھوں نے یہ پیشہ کرنے سے انکار کر دیا، جس پر وہ ملعون انھیں زدو کوب کرتا تھا یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم: ۳۰۲۹) ایک حدیث میں آتا ہے: ’’جن لونڈیوں سے جبراً یہ بے حیائی کا کام کروایا جائے گا، تو گناہ گار مالک ہوگا۔ یعنی جبر کرنے والا نہ کہ لونڈی جو مجبور ہے۔‘‘ (بخاری: ۶۹۴۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت سے خطا، نسیان اور ایسے کام جو جبر سے کرائے گئے ہوں معاف ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲۰۴۳)