يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا [٣٢] دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا [٣٣] حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے [٣٤] حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
اجازت کے بغیر گھروں میں داخل ہونے پر پابندی: گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدود کا بیان گزرا۔ اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے۔ تاکہ مرد اور عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور پر زنا اور قذف کا سبب بنتا ہے۔ یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے اس وقت تک داخل نہ ہو۔ اِذْن کیوں ضروری ہے: ملاقاتی کے لیے صاحب خانہ سے اذن حاصل کرنا پھر گھر میں داخل ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اگر ملاقاتی گھر میں بلا اذن داخل ہو تو ممکن ہے اس وقت اہل خانہ اپنی کسی نجی گفتگو میں مصروف ہوں یا عورت بے حجاب پھر رہی ہو یا صاحب خانہ کسی اور مجبوری یا معذوری کی وجہ سے اس وقت ملاقات کرنا ہی نہ چاہتا ہو۔ لہٰذا مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے آتے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جس سے بے پردگی کا امکان رہتا ہے۔ (ابو داؤد: ۵۱۸۶) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر کھڑا ہو کر اندر جھانکنے سے بھی سختی سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (بخاری: ۶۹۰۲، مسلم: ۲۱۵۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں ’’میں، میں‘‘ کہا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے۔ (بخاری: ۶۲۵۰، مسلم: ۲۱۵۵) عمل کرنے سے مراد: یعنی اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لیے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔ علاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں گھر جاتے ہوئے اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ وہ بولا: میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو۔ وہ کہنے لگا: میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو، کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے؟ وہ کہنے لگا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اذن لے کر جاؤ۔ (امام مالک: ۴۴۸)