الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے، اور خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ [٣١] عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (تہمت لگانے والے) بکتے ہیں، ان کے لئے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں: یہ آیت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح طیب ہیں ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لائق ہوتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان خدا باندھ رہے ہیں انھیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج و ایذا پہنچی وہ بھی ان کے لیے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی اور یہ چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اس لیے جنت عدن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں گی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے، پھر جو ان میں سب سے خراب ہو، اسے بیان کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے، وہ اسے کہے کہ ریوڑ میں سے جو بکری تجھے پسند ہے وہ لے لے، یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے۔ (مسند احمد: ۲/ ۴۰۵) ایک اور حدیث میں ہے: حکمت کا کلمہ مومن کی گم شدہ دولت ہے جہاں بھی پائے، لے لے۔ (ترمذی: ۲۶۸۷)