إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی [٢٢] کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔[٢٣]
فَاحِشَۃٌکے معنی: بے حیائی کے ہیں اور قرآن نے (سورۂ بنی اسرائیل میں) بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔ جس سے بے حیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عنداللہ اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ رات دن ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں، اللہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہوں گے؟ اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کیونکر اشاعت فاحشہ کے جرم سے بریٔ الذمہ قرار پائیں گے؟ وہ بھی اشاعت فاحشہ کے مجرم کیوں نہیں ہوں گے؟ ان سب باتوں کے لیے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے، ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے تاکہ کم از کم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں ورنہ انھیں دنیا میں بھی عذاب چکھنا ہو گا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔ اللہ عالم ہے وہ جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائزہ کتنا وسیع ہے اور ان کی زد کہاں کہاں پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے، نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتدا سے ہی فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔