وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
جب تم نے یہ قصہ سنا تھا تو تم نے یوں کیوں نہ [٢٠] کہہ دیا کہ : ''ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں، سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے''
(۴) چوتھی بات کہ یہ معاملہ براہ راست حرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی عزت و آبرو کا تھا۔ لیکن تم نے اسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی اور اسے ہلکا سمجھا۔ اس سے یہ بھی سمجھانا مقصود ہے کہ محض آبرو ریزی ہی بڑا جرم ہے کہ جس کی حد سو کوڑے یا رجم ہے۔ بلکہ کسی کی عزت و آبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عفت مآب خاندان کی تذلیل و اہانت کا سرو سامان کرنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ اسے ہلکا مت سمجھو۔ اسی لیے آگے پھر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے سنتے ہی کیوں نہیں کہا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ یہ یقینا بہتان عظیم ہے۔ اسی لیے امام مالک فرماتے ہیں کہ جو نام نہاد مسلمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بے حیائی کا الزام عائد کرے وہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ کی اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)