الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
زانی عورت ہو یا مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو درے [٣] لگاؤ، اور اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ [٤] تمہیں ان دونوں (میں سے کسی) پر بھی ترس نہ آنا چاہئے۔ اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ ان کی سزا [٥] وقت موجود ہونا چاہئے۔
زنا کاری کی شرعی سزا: بدکاری کی ابتدائی سزا، جو اسلام میں عبوری طور پر بتلائی گئی تھی جیسا کہ سورہ النساء میں ارشاد ہے: ﴿وَ الّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا۔ وَ الَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا﴾ (النساء: ۱۵۔ ۱۶) ’’تم میں سے جو عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر چار مردوں کی گواہی لاؤ، پھر اگر وہ چاروں گواہی دے دیں تو تم ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو تاآنکہ وہ مر جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے دوسری راہ مقرر کر دے اور پھر جو دو مرد تم میں سے اسی جرم کا ارتکاب کریں تو ان کو ایذا دو۔‘‘ پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کے مطابق بدکار مرد اور عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے۔ وہ تم مجھ سے سیکھ لو اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لیے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد و عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے سے مار دینا۔ (مسلم: ۱۶۹۰) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کو عملاً سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہو گئے۔ اب شادی شدہ زانیوں کے لیے سزا صرف (رجم) سنگساری ہے۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے علما و فقہا بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حکم کے تحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہیے دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہو گا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’حد کا زمین میں قائم ہونا زمین والوں کے لیے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۳۷۶) پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہیے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہیے اور انھیں ضرب بھی شدید مارنی چاہیے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کے لیے بھی عبرت بنے۔ پھر فرمایا ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہیے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ وہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔ اسے اعلانیہ سزا دی جائے۔ مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑ دیا جائے۔ ایک شخص یا اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہو گئی اور آیت پر عمل ہو جائے گا۔