سورة البقرة - آیت 20

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ) عنقریب ہی بجلی ان کی بصارت کو اچک لے گی۔ جب بجلی کی چمک سے کچھ روشنی پڑتی ہے تو چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو (اس حال میں کڑک سے) ان کی سماعت کو اور (چمک سے) ان کی بصارت [٢٥] کو سلب کرسکتا تھا، (کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی قسم کے منافقوں كا جن کے دلوں میں کفر ہی کفر تھا، نورِ بصارت سلب کرلیا تھا اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے گونگا، بہرا اور اندھا بناسکتا تھا۔ انھیں جب اسلام میں آسانی میسر آتی تو اسلام کی طرف راغب ہوجاتے اور جب سخت احکام نازل ہوتے تو وہیں ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ۔ مگر اللہ کا یہ دستور نہیں، جو کسی حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہو اُسے اتنا بھی دیکھنے اور سننے نہ دے یہ منافقین جس قدر حق دیکھنے اور سننے کے لیے تیار تھے اس قدر سماعت اور بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: منافقین کا روشنی میں چلنا یعنی حق کو پہچان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہرجانا یہ کفر کی طرف لوٹنا ہے بعض لوگ وہ ہیں جو کنارے پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر برائی ملے تو اسی وقت پھر جاتے ہیں۔