سورة المؤمنون - آیت 71

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو یہ زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے ان سب کا نظام درہم برہم [٧٢] ہوجاتا بلکہ ہم نے انھیں انہی کے لئے ذکر (قرآن) دیا ہے مگر وہ اپنے اس ذکر سے ہی منہ موڑ [٧٣] رہے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حق لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں؟: اگر اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں کی خواہشات کے مطابق نازل ہوں تو اللہ تعالیٰ مالک و مختار کہاں رہ گیا؟ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) بندوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن جائے گا۔ پھر خواہشات بھی ہر ایک کی الگ الگ اور ایک دوسرے سے متصادم و مخالف۔ اس کی ایک سادہ سی مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی کی دو بیٹیاں تھیں اس نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ایک زمین دار کے لڑکے سے کر دیا اور دوسری کا ایک کمہار سے۔ ایک دفعہ وہ اپنی بیٹیوں سے ملنے گیا۔ پہلے وہ بڑی بیٹی کے ہاں گیا تو وہ کہنے لگی: ابا جان! کافی عرصہ سے بارش نہیں ہو رہی، فصل کو پانی کی شدید ضرورت ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ رحمت کی بارش برسا دے، اگر فصل نہ ہوئی تو ہم تو بھوکوں مر جائیں گے۔‘‘ اس نے بیٹی سے دعا کا وعدہ کیا۔ پھر دوسری بیٹی کے ہاں گیا تو وہ کہنے لگی ابا جان! ابھی ابھی ہم نے برتنوں والا آوا چڑھایا ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ابھی کچھ مدت بارش نہ ہو۔ اگر بارش ہو گئی تو ہمارا بہت نقصان ہو جائے گا۔ وہ اس کی بات سن کر کہنے لگا: ’’یا اللہ! جیسے تیری مرضی ویسے ہی کر، اپنے کاموں کو تو ہی بہتر جانتا ہے۔ اب اگر مشرکوں کی خواہش کا اتباع کیا جائے تو ان کی تو یہ خواہش ہے کہ ان کے معبودوں کو تصرف امور میں شریک سمجھا ہی نہ جائے بلکہ بنا بھی دیا جائے۔ اب بتائیے اس صورت میں یہ نظام کائنات ایک دن بھی قائم رہ سکتا ہے۔ ایک گھر میں دو منتظم، ایک مملکت میں دو بادشاہ کبھی سما نہیں سکتے تو کیا اس کائنات میں مشرکوں کے سیکڑوں خداؤں کی خدائی سے کائنات کا نظام ایک منٹ بھی چل سکتا ہے؟ حق صرف اس لیے حق ہے کہ لوگ اس کی اتباع کریں نہ یہ کہ حق لوگوں کی خواہشات کی اتباع کرنے لگے۔ اگر فی الواقع ایسا ہو تو کوئی بات بھی حق نہ رہے گی۔