سورة المؤمنون - آیت 33

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اس کی قوم کے جن سرداروں نے (اس دعوت کو ماننے سے) انکار کیا اور آخرت کی ملاقات کو [٣٨] جھٹلایا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں عیش و آرام دے رکھا تھا، کہنے لگے'': یہ تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے، وہی کچھ کھاتا ہے [٣٩] جو تم کھاتے ہو اور پیتا بھی وہی کچھ ہے جو تم پیتے ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ سرداران قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کی تکذیب میں سرگرم رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہی کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیوی آسائشوں کی فراوانی، یہ دو بنیادی سبب تھے اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے، آج بھی اہل باطل انہی اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے۔ آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔