فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
تب ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری ہدایات کے مطابق ایک کشتی بناؤ۔ پھر جب (عذاب کے لئے) ہمارا حکم آجائے اور تنور ابلنے لگے تو ہر قسم کے جوڑے سے دو (نر اور مادہ) اس کشتی میں بٹھا لینا اور اپنے گھر والوں کو بھی سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا کیونکہ وہ غرق ہو کے ہی رہینگے۔
اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق ایک کشتی تیار کرو اور اس میں ہر قسم کا ایک جوڑا یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات (کا نر اور مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے اور اسی میں اپنے اہل کو بھی بٹھا لو۔ مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کر چکی ہے جیسے زوجہ نوح علیہ السلام اور ان کا بیٹا۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنے لگے: اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جن میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین مراد ہے کہ ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہو گئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح علیہ السلام کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے، یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے، کیونکہ ان کے غرق ہونے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔