سورة الحج - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مذبذب اور متردد مسلمان: جو خدا کی بندگی تو قبول کر چکے ہیں مگر اس کی راہ میں خطرات و مصائب کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ انھیں سرزنش کی گئی ہے کہ راحت، مسرت، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے اور جہاں خدا کی راہ میں مشکلات آئیں سختیاں جھیلنی پڑیں پھر نہ خدا تمہارا رہا نہ تم اس کے بندے رہے۔ مسلمانوں سے خطاب: مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی اور بتایا گیا ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد تمہاری روش کیا ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’مسلم‘‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے اصل جانشین تم ہو۔ تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے اب تمہیں اقامت صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ، اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونہ بنانا ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ (تفہیم القرآن) دعوت تقویٰ: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقویٰ کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے۔ خصوصاً قیامت کے زلزلے سے، اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔ جیسا کہ سورہ زلزال میں ہے ﴿اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا﴾ (الزلزال: ۱) جب زمین اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی۔ سورہ حاقہ میں فرمایا: ﴿وَ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً﴾ (الحاقۃ: ۱۴) ’’زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔‘‘ اور سورۂ واقعہ میں فرمایا: ﴿اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۔ وَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا﴾ (الواقعہ: ۴۔ ۵) ’’جب کہ زمین بڑے زور سے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔‘‘ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کر چکا تو صو ر کو پیدا کیا، اسے حضرت اسرافیل کو دیا، وہ اسے منہ میں لیے ہو ئے آنکھیں اوپر اُٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہا ہے۔ کب حکم الٰہی ہوا اور وہ صور پھونک دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! صور کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک پھونکنے کی چیز ہے۔ بہت بری، جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا، پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہوگا، دوسرا بے ہوشی کا، تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اُٹھیں گے سوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے۔ (بخاری: ۴۴۰۸)