فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
پھر جب طالوت اپنے لشکروں سمیت چل کھڑا ہوا تو اس نے ان سے کہا کہ (راستے میں) ایک نہر [٣٤٨] ہے جس سے اللہ تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔ جس نے اس نہر سے (سیر ہو کر) پانی پی لیا وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی وہ ہے جو اسے نہ چکھے۔ الا یہ کہ چلو بھر پانی لے لے۔'' پھر ماسوائے چند آدمیوں کے سب نے سیر ہو کر اس نہر سے پانی پی لیا۔ پھر جب طالوت اور اس کے لشکری اس نہر سے آگے گئے۔ تو طالوت کے لشکری کہنے لگے : ''آج ہمیں جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ البتہ ان میں سے [٣٤٩] وہ لوگ، جو یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں، کہنے لگے : ''کئی دفعہ ایسا ہوا کہ تھوڑی سی جماعت اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب رہی ہے اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔''
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ امیر کی اطاعت ہر حال میں ضروری ہے دشمن سے مقابلہ کے وقت تو اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جنگ میں کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے کہ فوجی بھوک، پیاس اور دوسری مشکلات کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ طالوت کو پتہ تھا اور اس نے کہا تھا کہ اللہ تمہیں اس نہر سے آزمانے والا ہے ۔ یہ جاننے کے لیے کہ تم کتنے ثابت قدم ہو مشکلات میں کون صبر کرسکتا ہے اور کون اپنی خواہشات کے مقابلے میں کھڑا ہوسکتا ہے۔ آزمائش کیا تھی؟ یہ كہ جس نے پانی سیر ہوکر پی لیا وہ میرا ساتھی نہیں اور جس نے چلو بھر لے لیا تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے جی بھر كر پانی پی لیا، پھر وہ اس قابل نہ رہے کہ لڑائی کرسکیں اللہ نے پختہ عزم کی جانچ کی۔ مضبوط دل کی جانچ کی گئی اور ان لوگوں كو سردار کی اطاعت سے آزمایا۔ طالوت کے لشکر کی تعداد: شیخی بگھارنے والوں کی تعداد ستّرہزار تھی جن لوگوں نے اپنی پیاس کو برداشت کیا ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ’’یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی۔‘‘(بخاری: ۳۹۵۸) ظاہری اسباب پر بھروسا کرنے والے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اللہ پر پختہ یقین ہو تو قلیل تعداد بھی بڑے سے بڑے گروہ پر کامیاب ہوجاتی ہے فتح و شکست، زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے۔