سورة الأنبياء - آیت 2

مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب بھی ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے سن تو لیتے ہیں مگر کھیل میں پڑے [٣] رہتے ہیں (اس میں غور نہیں کرتے)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نئی نصیحت سے مراد کوئی نئی سورت ہے جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو اسے سن کر بھی اَن سنی کر دیتے ہیں دنیا کے کاروبار اور مشاغل میں اس طرح پھنسے اور منہک ہیں کہ ان آیات الٰہی میں غور و فکر کرنے کی انھیں فرصت ہے نہ اس کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ پس اپنے دنیا کے دھندوں میں ہی مست رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دلوں کو کتاب الٰہی کے اثر سے دور رکھنا چاہتے ہیں بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے، تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے۔ پھر تعجب ہے کہ لوگ باوجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں۔