سورة البقرة - آیت 17

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان منافقوں کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے (اندھیرے میں) آگ جلائی۔ جب اس آگ نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو (عین اس وقت) اللہ نے ان (کی آنکھوں) کے نور کو سلب کرلیا اور انہیں (پھرسے) اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ (کچھ بھی) دیکھ نہیں سکتے۔[٢٣]

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حدیث ’’حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے كہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلد ہی منافق ہوگئے‘‘۔ آگ جلانے والے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں اسلام کی شمع روشن کی، اور حق و باطل ، صحیح و غلط مفید و نقصان دہ چیزوں کو ایك دوسرے سے جدا کردیا، جو سچے مومن تھے انھیں سب کچھ واضح نظر آنے لگ گیا تھا، مگر منافقین جو اپنے مفاد پرستی کی وجہ سے اندھے ہورہے تھے، تاریکی میں تھے، شرک میں مبتلا تھے، لیكن جو ایك بار مسلمان ہوئے اور روشنی میں آگئے حلال و حرام ، خیروشر کو پہچان گئے، لیکن وہ دوبارہ کفرونفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی۔ اسی اندھے پن کو اللہ تعالیٰ نے ’’ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان كے دلوں پر مہر لگا دی، ہے فرمایا ہے: ’’ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہرگز نہیں کہ وہ کسی کو زبردستی ہدایت دے بلکہ جو جس طرف چلنا چاہتا ہے اللہ اُسی طرف اس کی مدد کردیتا ہے اسی طرح جب منافقوں نے خود صداقت دیکھنا گوارا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انھیں تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ (تفسیر طبری: ۱/ ۳۳۷)