وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
جو باپ (باہمی جدائی کے بعد) یہ چاہتا ہو کہ اس کا بچہ پوری مدت دودھ پیئے تو مائیں [٣١٧] اپنے بچوں کو پورے [٣١٨] دو سال دودھ پلائیں۔ اور ماں اور بچے کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری اس پر ہے جس کا وہ بچہ ہے (یعنی باپ پر) اور یہ خرچ [٣١٩] وہ دستور کے مطابق ادا کرے گا۔ مگر کسی [٣٢٠] پر اس کے مقدور سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے گا۔ نہ تو والدہ [٣٢١] کو اس کے بچہ کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ ہی باپ کو اپنے بچہ کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور (اگر باپ مر جائے تو) نان و نفقہ کی یہ ذمہ داری [٣٢٢] وارث پر ہے۔ اور اگر (دو سال سے پہلے) وہ باہمی رضامندی اور مشورہ سے [٣٢٣] دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو (کسی دایہ سے) دودھ پلوانا چاہو تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں۔ جبکہ تم دایہ کو دستور کے مطابق اس کا معاوضہ [٣٢٤] دے دو جو تم نے طے کیا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو [٣٢٥] اور جان لو کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے
اس آیت میں رضاعت کا بیان ہے اور والد ات میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جن کو طلاق ہو چکی ہو خواہ وہ عدت میں ہوں یا عدت بھی گزرچکی ہو اور وہ بھی جو بدستور بچہ کے باپ کے نکاح میں ہوں۔ رضاعت کی مدت: اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے تاہم اس میں حسب ضرورت کم مدت کی گنجائش بھی نکلتی ہے۔ نان و نفقہ: منکوحہ عورت یا مطلقہ عورت جو عدت میں ہو اس کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری تو پہلے ہی باپ پر ہوتی ہے اور اگر عدت گزرچکی ہو تو اس آیت کی رو سے باپ ہی مطلقہ عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ وہ اس کے بچے کو دودھ پلارہی ہے۔ ماں کو تکلیف پہنچانے سے مراد: مثلاً ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر مامتا کے جذبے کو نظرانداز کرکے بچہ اس سے چھین لیا جائے، یا یہ کہ ماں بغیر خرچہ لیے بچے کو دودھ پلانے کی ذمہ داری نہ اٹھائے اور اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے ۔ باپ کو پریشان کرنے سے مراد: یعنی والد سے اس کی حیثیت سے زیادہ کھانے اور کپڑے کے اخراجات کا مطالبہ کیا جائے یہ مطالبہ خواہ عورت خود کرے یا اس کے ورثاء کریں۔ اگر ماں کے علاوہ کسی اور سے دودھ پلوایا جائے: تو اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا بھی نان و نفقہ دستور کے مطابق ادا کیا جائے اگر باپ فوت ہوجائے تو یہ خرچ بچے کے وارث یعنی دادا، چچا وغیرہ ادا کریں گے۔