سورة البقرة - آیت 216

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔[٢٨٥] اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور (یہ حقیقت) اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے وہ تمہیں گراں اور ناگوار ہی لگے اس لیے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہوسکتا ہے اس میں تمہارے لیے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح و نصرت، غلبہ، عزت و سربلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے۔ اس طرح تم جس کو پسند کرو یعنی گھر میں بیٹھ رہنا اس کا نتیجہ تمہارے لیے خطرناک بھی ہوسکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے: شہید کی موت قوم کی حیات ہے اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو افضل عمل قراردیا گیا ہے۔