سورة الكهف - آیت 79

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

کشتی کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ چند مسکینوں کی ملکیت تھی جو دریا پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار [٦٧] کردوں کیونکہ ان کے آگے ایک ایسا بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی مصلحتیں: اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انھیں جو حکم ملا تھا وہ انھوں نے کیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا۔ اس لیے بہ ظاہر اسے خلاف شریعت سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے حضرت خضر نے اب اس معاملہ کو سمجھا دیا کہ ایک ظالم بادشاہ تھا ہر اچھی کشتی کو وہ بے کار میں لے لیتا تھا میں نے سوچا کہ اگر یہ کشتی چھین لی گئی تو بے چاروں کا روز گار بند ہو جائے گا۔ لہٰذا میں نے کشتی سے ایک تختہ توڑ دیا اور وہ غصب ہونے سے بچ گئی میں نے دراصل کشتی والوں سے بھلائی کی آخر میں نے کیا برا کیا تھا؟