يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کیا کہ خرچ کریں ؟ آپ ان سے کہیے کہ جو بھی مال تم خرچ کرو [٢٨۴] وہ والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے اور جو بھی بھلائی کا کام تم کرو گے یقینا اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے
بعض مالدار صحابہ نے آپ سے مال خرچ کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق کون ہیں اور اس کی ترتیب بھی بتادی گئی ہے یہ حکم نفلی صدقات سے متعلق ہے۔ زکوٰۃ كا نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ کے مصارف کا تعلق اجتماعی معاملات سے ہے اور نفلی صدقات انفرادی معاملات کے لیے ہیں۔ حضرت میمون بن مہران نےاس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا : ’’مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے ۔ نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا نا پسندیدہ اور اسراف ہے۔ افسوس کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے ہیں کہ اس کے متعلق کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔‘‘