إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا
جب ان نوجوانوں [٩] نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے! اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔
اصحاب کہف کا غار میں پناہ لینا: یہ وہی نوجوان تھے جنھیں اصحاب کہف کہاگیا ہے۔ یہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ اس وقت کا بادشاہ ’’دقیانوس‘‘ خود بھی بت پرست اور مشرک تھا۔ عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ابھی وضع نہیں ہوا تھا۔ ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کیسی کیسی سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبو رکیا جا رہا ہے تو انھوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے لوگوں سے روپوش ہو کر پہاڑ کی ایک کھلی غار میں پناہ لے لی۔ اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے گا اور وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے گا اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ مگوئیاں بھی سن آئے گا تاکہ موجودہ صورت خال سے ساتھیوں کو بھی آگاہ کر تا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر اپنی رحمت فرما، اور ہماری صحیح رہنمائی فرما۔