وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا
اور کہہ دیجئے کہ ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی ناتوانی کی وجہ [١٣٠] سے اس کا کوئی مددگار ہے۔ اور اسی کی خوب خوب بڑائی بیان کیجئے۔
کیا اللہ کو کسی مدد گار کی ضرورت ہے؟ اس آیت میں مشرکین کے اس بنیادی عقیدے کی تردید کی گئی ہے جس کی بنا پر کئی قسم کے شرک رائج ہو گئے۔ وہ عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لیے امیروں، وزیروں اور کئی طرح کے مددگاروں کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ کو اتنی بڑی سلطنت کا کاروبار چلانے کے لیے کارکنوں کی ضرورت پیش آتی ہے اور ہماری یہ دیویاں، دیوتا، غوث، قطب، ابدال وغیرہ سب اس انتظام کے مختلف شعبے سنبھالے ہوئے ہیں یہ ہے وہ بنیادی گمراہی جس نے بے شمار قسم کے شرک کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بے ہودہ عقیدہ کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تو ہر وقت اس کی عظمت، جلالت، کبریائی، بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ، اللہ واحد ہے صمد ہے نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر ہے کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو، یا وزیر و مشیر کی اسے حاجت ہو، بلکہ تمام چیزوں کا خالق و مالک وہی ہے۔ سب کا مدبر وہی ہے، اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے۔ وہ وحدہُ لاشریک الٰہ ہے۔ نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی مددکا طالب ہے۔ اور جو تہمتیں یہ مشرکین اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی، بڑائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ وہ ہر ایک کی فریاد و پکار براہ راست سنتا ہے۔ ان کا جواب دیتا اور اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اسے درمیانی واسطوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس ہر چیز کے لاتعداد اور لامحدود خزانے ہیں جن سے وہ ہر وقت اپنی مخلوق کو نوازتا رہتا ہے۔ جو کچھ بھی مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ گویا اس آیت میں مشرکین مکہ، موجودہ دور کے مشرکوں سب کا رد موجود ہے۔ جس معبود میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں وہ معبود حقیقی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر طرح کی تعریف اسی ذات کے لائق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے سب چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا نام (العز یعنی) عزت والی آیت رکھا ہے۔ اس سورہ بنی اسرائیل کی ابتدا سبحان اللّٰہ الذی سے ہوئی کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ اور خاتمہ بھی اسی بیان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد، شرکاء اور حمایتیوں کی کسی بھی طرح کی مدد کا محتاج نہیں۔ یہ فصاحت و بلاغت کے انتہائی کمال کی دلیل ہوتی ہے کہ مضمون کو جس عنوان سے شروع کیا جائے۔ درمیان میں اس کی جملہ تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس کا خاتمہ بھی اسی بیان پر کیا جائے جس سے ابتدا کی گئی ہے۔ الحمد للہ