قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا
آپ ان سے کہئے : تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، اس [١٢٦] سے پہلے جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے جب انھیں یہ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ تھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔
منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا: اے قریش مکہ! تم قرآن منزل من اللہ مانو یا نہ مانو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آرہا ہے۔ سابقہ امتوں میں جو بھی لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں جنھوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے۔ کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی آیات سنتے ہی ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور وہ سجدہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہو جاتا ہے اور وہ یہ پکار اُٹھتے ہیں کہ یہ وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات اور انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو گیا ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔