سورة الإسراء - آیت 100

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے کہ : ''اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک تم ہوتے تو ان کے خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے سب کچھ اپنے پاس ہی رہنے [١١٨] دیتے۔ واقعی انسان بہت تنگ دل ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسانی فطرت کا نفسیاتی جائزہ: خشیۃ الانفاق سے مراد: اس بات کا ڈر کہ خرچ کرکے ختم کر ڈالیں گے اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے، حالانکہ رحمت الٰہی، خزانہ الٰہی ہے جو ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے اس لیے بُخل سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اَمْ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا﴾ (النساء: ۵۳) ’’اگر ان کو اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں یعنی تِل برابر بھی کسی کو نہ دیں۔‘‘ یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں ایک حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں، کس قدر خرچ کیا ہوگا، لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں (وہ بھرے کے بھرے) ہیں۔ (بخاری: ۴۶۸۴)